اڑاؤں نہ کیوں تار تار گریباں
اڑاؤں نہ کیوں تار تار گریباں
کہ پردہ دری ہے شعار گریباں
ہر اک تار ہے دست گیر تماشا
کیا ضعف نے شرمسار گریباں
کتان و گل و سینۂ اہل حسرت
بہت چیز ہیں یادگار گریباں
اگر دشمنی بخیہ گر کو نہیں
تو کیوں اس قدر دوست دار گریباں
یہیں قید رسم خلائق پسند
ہر اک سانس ہے خار خار گریباں
وفا ہے مری پیش دست سلاسل
ترا پردہ ہے پیش کار گریباں
یہ اڑنے میں چالاک ہر پارہ ہے
رم دشت وحشت شکار گریباں
کبھی کوہ میں دشت میں ہے کبھی
نہیں کچھ گلو پر مدار گریباں
قلقؔ کیوں کے پردہ نہ اٹھتا ہمارا
کہ ہے بخیہ گر راز دار گریباں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |