اک حسیں کو دل دے کر کیا بتائیں کیا پایا

اک حسیں کو دل دے کر کیا بتائیں کیا پایا (1940)
by علی منظور حیدرآبادی
324669اک حسیں کو دل دے کر کیا بتائیں کیا پایا1940علی منظور حیدرآبادی

اک حسیں کو دل دے کر کیا بتائیں کیا پایا
لذت فنا چکھی زیست کا مزا پایا

منزلوں کی سختی کا غم نہیں خوشی یہ ہے
کس ہجوم حسرت میں ہم نے راستہ پایا

قدر اس کی پہچانیں آپ یا نہ پہچانیں
اپنے دل کو ہم نے تو حسب مدعا پایا

بے خودی کی حسرت کیا بے سبب میں کرتا تھا
آ کے ہوش میں سمجھا بے خودی میں کیا پایا

شیخ یہ تہی ساغر ہاں اسی کو ساقی نے
میرے کام کا پایا یا تیرے کام کا پایا

حسرتیں سراسیمہ ہر طرف نظر آئیں
کاروان دل میں نے پھر لٹا ہوا پایا

میری مستیاں سمجھیں تیری شوخیاں جانیں
تو نے کیا لیا مجھ سے میں نے تجھ سے کیا پایا

سب یہ رنگ آمیزی ہے فقط تخیل کی
کیا بتاؤں کیا کھویا کیا جتاؤں کیا پایا

پاس بیٹھ کر میرے دیکھتے نہیں مجھ کو
ان کی شرم کو میں نے صبر آزما پایا

سعی پیہم اے منظورؔ اس قدر نشاط افزا
ناامید کس سے تھے کس سے یہ صلہ پایا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).