اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے
اک شکل ہے تفنن طبع جمال کی
اس سے زیادہ کچھ نہیں دنیا کہیں جسے
خمیازہ ہے کرشمہ پرستئ دہر کا
اہل زمانہ عالم عقبیٰ کہیں جسے
اک اشک ارمیدۂ ضبط غم فراق
موج ہوائے شوق ہے دریا کہیں جسے
باوصف ضبط راز محبت ہے آشکار
عقدہ ہے دل کا عقد ثریا کہیں جسے
برہم زن حجاب ہے خود رفتگی حسن
اک شان بے خودی ہے زلیخا کہیں جسے
عکس صفائے قلب کا جوہر ہے آئینہ
وارفتۂ جمال خود آرا کہیں جسے
رم شیوہ ہے صنم تو ہے رم آشنا یہ دل
حاصل ہے مجھ کو عیش مہیا کہیں جسے
خونی کفن یہ سینت کے رکھا ہے کس لیے
قاتل وہ ہے کہ رشک مسیحا کہیں جسے
سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں دہر کا وجود
کیفیؔ یہ بات وہ ہے معما کہیں جسے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |