اک شخص جواں خاک بسر یاد تو ہوگا
اک شخص جواں خاک بسر یاد تو ہوگا
وہ اپنی نگاہوں کا اثر یاد تو ہوگا
وہ دھوم زمانے میں مرے جوش جنوں کی
وہ غلغلۂ شام و سحر یاد تو ہوگا
بھولے تو نہ ہو گے وہ تجلی کی حکایت
وہ تذکرۂ داغ جگر یاد تو ہوگا
ہر گام پہ وہ حسن کی پر ہوش نگاہیں
وہ عشق کا بد مست سفر یاد تو ہوگا
ہر لمحہ وہ دنیائے محبت میں تغیر
ہر سانس میں وہ رنگ دگر یاد تو ہوگا
وہ دل کو ترے حسن خود آرا سے تعلق
وہ خاک سے پیمان نظر یاد تو ہوگا
وہ کارگہ دہر سے اک بے خبری سی
وہ طعنۂ ہر اہل خبر یاد تو ہوگا
وہ دید کہ تھا روکش آرائش گیتی
پہروں طرف راہگزر یاد تو ہوگا
وہ عشق کے جذبات کا بھرپور تلاطم
طوفان کی موجوں میں گزر یاد تو ہوگا
گم کردہ سکوں پا کے مجھے اپنی گلی میں
کہنا وہ تجاہل سے کدھر یاد تو ہوگا
بھولی تو نہ ہوگی مری الفت کی حقیقت
مدت کا فسانہ ہے مگر یاد تو ہوگا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |