اک طلسم عجب نما ہوں میں

اک طلسم عجب نما ہوں میں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

اک طلسم عجب نما ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں کہ کیا ہوں میں

ہے زوال اپنا اک نشان کمال
بدو کی طرح گھٹ گیا ہوں میں

کیا نشاں پوچھتے ہو تم میرا
رہ گم گشتہ کا پتا ہوں میں

ہے یہ حیرت کہ ہوں تجسم درد
اور ہر درد کی دوا ہوں میں

میری شہرت ہے میری گمنامی
قوت بازوئے ہما ہوں میں

رہ الفت میں نقش پا کی طرح
خاک ہو ہو کے مٹ گیا ہوں میں

ساغر عشق کر گیا بے خود
ہوش کس کو نہیں ہوں یا ہوں میں

خاک سمجھو تم آبرو میری
درد اعزاز کی بہا ہوں میں

دم غنیمت ہے سالکو میرا
جرس دور کی صدا ہوں میں

ہوں صراحی میں بادۂ احمر
اور مے سرخ میں نشہ ہوں میں

جس طرح سے کنول ہو پانی میں
ہو کے دنیا میں پھر جدا ہوں میں

خاکساری ہے میری جوہر ذات
خاک میں مثل کیمیا ہوں میں

در درج وفا کی آب ہوں میں
دل کے آئینے کی صفا ہوں میں

آج ہے میری دھاک عالم میں
روشناس شہ و گدا ہوں میں

دھوم ہے فن شعر میں میری
قمر علم کی ضیا ہوں میں

لکھوں گر داستان رنج و الم
دل بشکستہ کی صدا ہوں میں

گر کروں ذکر ساز عیش و طرب
طوطئ خلد کی نوا ہوں میں

گر میں لکھوں بیان عرصہ رزم
ناوک ترکش قضا ہوں میں

ایک اس نظم پر ہے کیا موقوف
نور شمع علوم کا ہوں میں

قدر ہے میری قدر علم و ہنر
کیا زمانے میں دوسرا ہوں میں

ہوں تو سب کچھ پہ کچھ نہیں کیفیؔ
صورت موجۂ فنا ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse