اک نقش خیال رو بہ رو ہے

اک نقش خیال رو بہ رو ہے
by مضطر خیرآبادی

اک نقش خیال رو بہ رو ہے
جو کچھ ہے یہ کچھ نہیں ہے تو ہے

ہر پھول کے ساتھ ایک کانٹا
ہر دوست کے ساتھ اک عدو ہے

دل ہے تو ہزار تجھ سے اچھے
ایسا ہی تو اک بڑا وہ تو ہے

دشمن کے جگر کا خار میں ہوں
اور اس کے گلے کا ہار تو ہے

دامن جو ہے پردہ دار وحشت
اس میں بھی کئی جگہ رفو ہے

میں آپ ہی آپ رو رہا ہوں
کچھ آپ ہی آپ گفتگو ہے

محشر میں کسی کا ہائے کہنا
اب آپ کے ہاتھ آبرو ہے

او غیر کو آنکھ دینے والے
مضطرؔ بھی نگاہ رو بہ رو ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse