اک پردہ نشیں کی آرزو ہے

اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
by مضطر خیرآبادی

اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
در پردہ کہیں کی آرزو ہے

ہے بھی تو انہیں کا دل کو ارماں
ہے بھی تو انہیں کی آرزو ہے

ہوتا نہیں ہاں سے قول پورا
اب مجھ کو نہیں کہ آرزو ہے

کھو آئے ہیں کوئے یار میں دل
اس پر بھی وہیں کی آرزو ہے

ایمان کا اب خدا نگہباں
اک دشمن دیں کی آرزو ہے

نکلے بھی تو تیری جستجو میں
یہ جان حزیں کی آرزو ہے

اندھیرا مچا ہوا ہے دل میں
کس ماہ جبیں کی آرزو ہے

کیوں حشر کا قول کر رہے ہو
مضطرؔ کو یہیں کی آرزو ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse