اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا
اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا
تو بھلا یہ راز الفت کبھی آشکار ہوتا
ہے تنک مزاج صیاد کچھ اپنا بس نہیں ہے
میں قفس کو لے کے اڑتا اگر اختیار ہوتا
یہ ذرا سی اک جھلک نے دل و جاں کو یوں جلایا
تری برق حسن سے پھر کوئی کیا دو چار ہوتا
اجی توبہ اس گریباں کی بھلا بساط کیا تھی
یہ کہو کہ ہاتھ الجھا نہیں تار تار ہوتا
وہ نہ آتے فاتحہ کو ذرا مڑ کے دیکھ لیتے
تو ہجوم یاسؔ اتنا نہ سر مزار ہوتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |