اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
بہار گل میں دیوانوں کا صحرا میں پرا ہوتا
جدھر اٹھتی نظر کوسوں تلک جنگل ہرا ہوتا
مئے گل رنگ لٹتی یوں در مے خانہ وا ہوتا
نہ پینے کی کمی ہوتی نہ ساقی سے گلا ہوتا
ہزاروں جان دیتے ہیں بتوں کی بے وفائی پر
اگر ان میں سے کوئی با وفا ہوتا تو کیا ہوتا
رلایا اہل محفل کو نگاہ یاس نے میری
قیامت تھی جو اک قطرہ ان آنکھوں سے جدا ہوتا
خدا کو بھول کر انسان کے دل کا یہ عالم ہے
یہ آئینہ اگر صورت نما ہوتا تو کیا ہوتا
اگر دم بھر بھی مٹ جاتی خلش خار تمنا کی
دل حسرت طلب کو اپنی ہستی سے گلا ہوتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |