اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
اگر عاشق کوئی پیدا نہ ہوتا
تو معشوقوں کا یہ چرچا نہ ہوتا
گریباں چاک کر روتے کہاں ہم
اگر یہ دامن صحرا نہ ہوتا
سدا رہتی توقع بلبلوں کو
اگر یہ غنچۂ گل وا نہ ہوتا
جدائی میں اگر آنکھیں نہ روتیں
تو ہرگز راز دل افشا نہ ہوتا
فغاںؔ کون اب خریدار سخن تھا
اگر یہ حضرت سوداؔ نہ ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |