اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
تو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا
جفا سے غرض امتحان وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا
قفس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو
خبر گل کی ہم کو سناتا رہے گا
خفا ہو کے اے دردؔ مر تو چلا تو
کہاں تک غم اپنا چھپاتا رہے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |