ایذائیں اٹھائے ہوئے دکھ پاے ہوئے ہیں

ایذائیں اٹھائے ہوئے دکھ پاے ہوئے ہیں
by حاتم علی مہر

ایذائیں اٹھائے ہوئے دکھ پاے ہوئے ہیں
ہم دل سے بتنگ آئے ہیں اکتائے ہوئے ہیں

بیتاب ہیں بے چین ہیں گھبرائے ہوئے ہیں
ہم دل سے بتنگ آئے ہیں اکتائے ہوئے ہیں

ان ہونٹھوں کے بوسے کا مزا پاے ہوئے ہیں
پیار آیا ہے منہ تکتے ہیں للچائے ہوئے ہیں

زلفیں وہ بلا جی کو جو الجھائے ہوئے ہیں
جوڑے کے الٹ بیچ میں دل آئے ہوئے ہیں

غصے میں بھرے بیٹھے ہیں جھلائے ہوئے ہیں
افروختہ ہیں غیروں کے بھڑکائے ہوئے ہیں

دروازے پہ بیٹھے ہیں نکلوائے ہوئے ہیں
ہم نے تو ڈھہی دی وہ غضب ڈھائے ہوئے ہیں

اٹھلائے ہوئے بیٹھے ہیں اترائے ہوئے ہیں
اب روپ ہے جوبن پہ ہیں گدرائے ہوئے ہیں

کیا بات ہے کیا بات ہے تیری لب جاں بخش
ایسی بھی ترے عہد میں دم کھائے ہوئے ہیں

مجھ پر انہیں رحم آئے یہ ممکن ہی نہیں ہے
ایسے وہ سمجھتے نہیں سمجھائے ہوئے ہیں

کرتا غضب اب تک تو ہمارا دل بیتاب
روکے ہوئے ڈانٹے ہوئے دھمکائے ہوئے ہیں

ہنگامہ رہے گا یوں ہی کوچہ میں تمہارے
عاشق کہاں جا سکتے ہیں دل آئے ہوئے ہیں

آئیں تو عنایت ہے نہیں آتے نہ آئیں
ہم دل کو تصور ہی سے بہلائے ہوئے ہیں

دل ٹھہر گیا زخم جگر بھر گئے اپنے
آرام ہی ہم تم کو جو لپٹائے ہوئے ہیں

مرنے پہ بھی افسردہ دلی اپنی عیاں ہے
تربت پہ مری پھول بھی مرجھائے ہوئے ہیں

اغیار سیہ رو سے بہت ربط ہے ان کو
وہ چاند ہیں اے مہرؔ تو گہنائے ہوئے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse