ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا

ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا
by میر تقی میر

ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا
ہر گام پہ جس میں سر نہ ہوگا

کیا ان نے نشے میں مجھ کو مارا
اتنا بھی تو بے خبر نہ ہوگا

دھوکا ہے تمام بحر دنیا
دیکھے گا کہ ہونٹ تر نہ ہوگا

آئی جو شکست آئینے پر
روئے دل یار ادھر نہ ہوگا

دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم
ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہوگا

اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا
محنت زدوں کے جگر نہ ہوگا

دنیا کی نہ کر تو خواست گاری
اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہوگا

آ خانہ خرابی اپنی مت کر
قحبہ ہے یہ اس سے گھر نہ ہوگا

ہو اس سے جہاں سیاہ تد بھی
نالے میں مرے اثر نہ ہوگا

پھر نوحہ گری کہاں جہاں میں
ماتم زدہ میرؔ اگر نہ ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse