ایسی کوئل نہ پپیہے کی ہے پیاری آواز

ایسی کوئل نہ پپیہے کی ہے پیاری آواز
by امداد علی بحر

ایسی کوئل نہ پپیہے کی ہے پیاری آواز
کیا بھلی لگتی ہے کانوں کو تمہاری آواز

جب مجھے تم نے پکارا یہ دعا دی میں نے
رہے مکے میں مدینے میں تمہاری آواز

آپ کے بول سنائے وہ ہمیں کیا قدرت
ایسی پیدا تو کرے کوئی ستاری آواز

سن کے بسمل ہوئے ہم نغمہ سرائی ان کی
نہیں معلوم چھری ہے کہ کٹاری آواز

بے سرے سامنے اس کے رہے تنبور و ستار
لا کے تاروں کے جواری نے سنواری آواز

اس طرح روئیے آنسو فقط آنکھوں سے بہیں
منہ سے نکلے نہ دم گریہ و زاری آواز

چٹکیوں میں نہ اڑا مجھ کو مغنی بتلا
ساز کے پردے میں کس کی ہے یہ پیاری آواز

ایسے نالے کیے ہم نے کہ گلا بیٹھ گیا
آئی آفت وہ گلے پر کہ سدھاری آواز

ناچ گانے میں وہ عالم ہے جو دیکھے وہ کہے
سربسر تم ہو پری شعلہ ہے ساری آواز

بحرؔ روئے ہو ضرور آج کسی کے لیے تم
سرخ سرخ آنکھیں بھی ہیں اور ہے بھاری آواز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse