ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم

ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
بد خواب ہو گئے ہیں جو دو چار شب سے ہم

کب کامیاب بوسہ ہوئے اس کے لب سے ہم
شرمندہ ہی رہے دل مطلب مطلب سے ہم

بوسہ نہ لے سکے کف پا کا ادب سے ہم
کاٹیں ہیں اس لیے کف افسوس شب سے ہم

سوداگر صفائے دل بے غبار ہیں
اجناس شیشہ لائے ہیں شہر حلب سے ہم

یہ روز ڈھونڈھ لائے ہے اک خوبرو نیا
شاکی ہیں اپنے ہی دل آفت طلب سے ہم

کشتی ہماری بحر کی ہے مانجدھار میں
نکلے ہیں کب کشاکش لطف و غضب سے ہم

طرز خرام ناز کی بے اعتدالیاں
دیکھیں ہیں اور کچھ نہیں کہتے ادب سے ہم

برقعے میں ہو کہ پردۂ چادر میں خوبرو
پہچانتے ہیں وضع سے شوخی سے چھب سے ہم

شغل شراب و شیشہ و ساقیٔ نغمہ سنج
تائب ہوئے ہیں عالم پیری میں سب سے ہم

بے لطف زندگی کے ہیں دن آ بھی اے اجل
تیرے ہی انتظار میں بیٹھے ہیں کب سے ہم

فن اتنا کم کیا ہے کہ ان روزوں مصحفیؔ
دل میں اک انس رکھتے ہیں شعر عرب سے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse