ایفائے وعدہ آپ سے اے یار ہو چکا
ایفائے وعدہ آپ سے اے یار ہو چکا
اس کا تو امتحان کئی بار ہو چکا
احباب ہاتھ اٹھائیں ہمارے علاج سے
صحت پذیر عشق کا بیمار ہو چکا
وہ بے حساب بخش دے یہ بات اور ہے
اپنے حساب میں تو گنہ گار ہو چکا
میں ہاتھ جوڑتا ہوں بڑی دیر سے حضور
لگ جائیے گلے سے اب انکار ہو چکا
بیچوں کہاں میں اپنے دل داغدار کو
سودا برا پسند خریدار ہو چکا
پیری میں پرورش ہے عبث جسم زار کی
پھینکوں کسی گھڑی میں یہ بیکار ہو چکا
برہم وہ شوخ کیوں نہ ہو کیوں زلف کو چھوا
یہ ہاتھ ہتھکڑی کے سزاوار ہو چکا
اب مجھ سے التیام کی باتیں نہ کیجیے
دل تم سے پھٹ گیا جگر افگار ہو چکا
مجھ دل فگار کو نہ رہی تم سے کچھ امید
یہ خط سبز مرہم زنگار ہو چکا
دربان کو سلام کریں گھر کی راہ لیں
وہ منہ چھپا کے بیٹھے ہیں دیدار ہو چکا
بندے کے حال پر نظر پرورش رہے
حسن ملیح کا میں نمک خوار ہو چکا
لوں بوسہ خوں بہا میں اس ابرو کمان سے
اب تو جگر سے تیر نگہ پار ہو چکا
اے بحرؔ اب تو بات بھی کرتا نہیں وہ شوخ
وہ رسم و راہ ہو چکی وہ پیار ہو چکا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |