ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانی

ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانی
by میر تقی میر
313516ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانیمیر تقی میر

ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانی
کی آل پیمبر سے جو دشمنی جانی
بے آبی میں کشتی تھی شبیر کی طوفانی
دریا کے کنارے پر اس کو نہ ملا پانی

کیا گوہر تر لا کر کس گھاٹ اتارا ہے
لب خشک جگر ٹکڑے بے یاور و یارا ہے
سب خویش و پسر بھائی ایک ایک کو مارا ہے
ہے قہر نہ پانی پر یہ پیاس کی طغیانی

انواع ستم گذرے بہتوں کو جواں مارا
جو جاکے گھرا تنہا میداں میں عیاں مارا
انصار کو یاں مارا اعوان کو واں مارا
عباس کی بے جانی اصغر کی وہ نادانی

بازو نہ رہا کوئی اس درد کا کیا چارہ
کیا لطف ہے جینے کا کنبہ مرے جب سارا
پھر دیدہ و دانستہ اپنے ہی تئیں مارا
سب شہر بیابانی گھر بار کی ویرانی

یہ حشر میں احمد کو منھ کیونکے دکھائیں گے
کیا سامنے حیدر کے رولے کے پھر آئیں گے
دیکھیں گے جو زہرا کو کیا بات بنائیں گے
اے واہ ری دیں داری اللہ ری خداخوانی

کیا شام کے لوگوں نے فتنے کو جگایا ہے
اولاد کو حیدر کی سب جن نے سلایا ہے
یہ جور یہودوں سے کس دور میں آیا ہے
اس طور سے پیش آئے کب کفری و نصرانی

آنکھیں جو مندیں شہ کی آشوب سا اک آیا
اسباب گیا سارا خیمے کو جلا پایا
عریاں سر و بے چادر نسواں نہ جنھیں سایہ
اس جمع میں یک باری کیا آئی پریشانی

غارت ہوا ناگاہے اسباب امیرانہ
مردم حرم شہ کے نکلے ہو فقیرانہ
عابد کے تئیں لائے میداں میں اسیرانہ
وہ یوسف ثانی تھا جیسے کہ ہو زندانی

دل سینے میں صد پارہ بے طاقت و بے چارہ
ناموس بیاباں میں یک شہر تھے آوارہ
سر باپ کا نیزے پر کرتا تھا جو نظارہ
چاہے تھا کہ ناخن سے نوچوں سر و پیشانی

پر دست نہ تھا اس کو تھے ہاتھ رسن بستہ
رہ جاتا تھا سر دھن کر ناکام جگرخستہ
کہتا تھا پدر مر کر تو تو ہوا وارستہ
مجھ قیدی کی مشکل کی آساں نہیں آسانی

لاشوں کی طرف ہوکر نکلے جو اساریٰ سب
خون جگر آنکھوں میں فریاد تھی زیر لب
کرتی ہے نظر یک سو تو دیکھے ہے کیا زینب
ہے بھائی کے پیکر کو اس خاک میں غلطانی

گر خاک میں چلائی کیا جرم ہوا بھائی
جو سر کو کٹا تونے ہموار کی تنہائی
کر سیر چمن اپنا آفت عجب اک آئی
کیا باد خزاں نے کی جنگل میں گل افشانی

نو رستہ نہال اس کے یک دست چھٹے ہیں گے
اشجار سر و بن سے دیکھو تو کٹے ہیں گے
گل پھولے چڑھے چڑھ کر ماٹی میں اٹے ہیں گے
اس رنگ کی دیکھی ہے خاموشی و حیرانی

یاں آن کے جانا تھا ہوگی تری عزت بھی
حیدر کا خلف ہے تو ہے تجھ کو امامت بھی
خاطر کریں گے تیری بھیجیں گے اقامت بھی
سو قوم سیہ دل نے کیا خوب کی مہمانی

کیوں تاج شہی تیرا ہے خاک برابر یوں
کیوں مارے گئے تیرے سب خویش و برادر یوں
کیوں سرکے تئیں رکھا لے نیزے کے اوپر یوں
برباد کیا بارے کیوں تخت سلیمانی

پرگرد بیاباں میں آوارہ ہوئے ازبس
بے چارہ و بے وارث بے جا و مکاں بیکس
جا بیٹھیں کہیں چھپ کر اپنا جو چلے کچھ بس
کیا دیکھی ہے رسوائی کیا خاک ہے یاں چھانی

احمد نہیں ہے جس کو یہ حال دکھاویں ہم
حیدر نہیں جس پاس اب روتے ہوئے جاویں ہم
عباس نہیں جس کو اس وقت بلاویں ہم
تو تھا سو مٹا تیرا ہنگامۂ سلطانی

ہے زندگی کچھ یہ بھی تھی موت بھلی اس سے
سر کب تئیں یوں ماریں فریاد کریں کس سے
اکبر کہ توقع تھی ہم سب کے تئیں جس سے
بے وقت گیا مارا سو وہ نبی ثانی

قاسم کی طرف گاہے پڑتی تھی نظر جاکر
اس مخمصے میں شاید امداد کرے آکر
سر دے گیا سو آگے تہ بات کی کچھ پاکر
عشرت نہ جوانی کی اس دل زدہ نے جانی

ہم شام کو جاتے ہیں فرصت نہیں ہے ہم کو
بے طاقتی سے مطلق طاقت نہیں ہے ہم کو
تاکید سے چلنے کی مہلت نہیں ہے ہم کو
آنکھوں سے کریں ورنہ سب تیری نگہبانی

یہ کہہ کے گئے آگے روتے ہوئے غم دیدہ
اب تو بھی قلم رکھ دے اے میرؔ ستم دیدہ
بس گریہ سے خامے کے کاغذ تو ہے نم دیدہ
دیوانگی کر اس جا یھاں عقل ہے دیوانی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.