ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے

ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
by اصغر گونڈوی

ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے

معنی آدم کجا اور صورت آدم کجا
یہ نہاں خانے میں تھا اب تک نہاں خانے میں ہے

خرمن بلبل تو پھونکا عشق آتش رنگ نے
رنگ کو شعلہ بنا کر کون پروانے میں ہے

جلوۂ حسن پرستش گرمئ حسن نیاز
ورنہ کچھ کعبے میں رکھا ہے نہ بت خانے میں ہے

رند خالی ہاتھ بیٹھے ہیں اڑا کر جزو و کل
اب نہ کچھ شیشے میں ہے باقی نہ پیمانے میں ہے

میں یہ کہتا ہوں فنا کو بھی عطا کر زندگی
تو کمال زندگی کہتا ہے مر جانے میں ہے

جس پہ بت خانہ تصدق جس پہ کعبہ بھی نثار
ایک صورت ایسی بھی سنتے ہیں بت خانے میں ہے

کیا بہار نقش پا ہے اے نیاز عاشقی
لطف سر رکھنے میں کیا سر رکھ کے مر جانے میں ہے

بے خودی میں دیکھتا ہوں بے نیازی کی ادا
کیا فنائے زندگی خود حسن بن جانے میں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse