ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو
ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو
تس پہ کہتے ہو "دیا ہے تجھے" لو اور سنو
مے پیو آپ جو دیویں مجھے تلچھٹ احباب
ان سے کہتے ہو اسے خاک نہ دو اور سنو
قصہ اپنا تو میں سب تم سے کہا اے یارو
چپکے کیوں بیٹھے ہو کچھ تم بھی کہو اور سنو
چٹکیاں لیتے ہو جب پاس مرے بیٹھو ہو
آپ نے زور نکالی ہے یہ خو اور سنو
ستم طرفہ تو یہ ہے کہ مجھے روتا دیکھ
ہنس کے کہتے ہو ذرا اور بھی رو اور سنو
ابھی دفتر ہیں بغل میں مری اے ہم نفسو
ایک ہی بات میں اتنا نہ رکو اور سنو
مصحفیؔ ڈر نہیں میرے تئیں رسوائی سے
بات اپنی مجھے کہنی اسے گو اور سنو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |