ایک تو تری دولت تھا ہی دل یہ سودائی
ایک تو تری دولت تھا ہی دل یہ سودائی
تس اوپر قیامت ہے بے کسی و تنہائی
تیرے تئیں تو لازم تھا توبہ کا سبب پوچھے
مے کشی سے اے ساقی گو کہ ہم قسم کھائی
دل تو ایچ پیچوں سے دام خط کے چھوٹا تھا
زلف پھر نئے سر سے سر اوپر بلا لائی
جی تو بے قراری سے جاں بہ لب ہے اے ناصح
کو تحمل و طاقت صبر اور شکیبائی
عمر عاشق و معشوق صرف ناز و حیرت ہے
حسن ہے ادا پرداز عشق ہے تماشائی
رات اس کی محفل میں سر سے جل کے پاؤں تک
شمع کی پگھل چربی استخواں نکل آئی
حسب حال حاتمؔ ہے شعر میرزا مظہرؔ
اس سے پھر زیادہ کچھ ہے عبارت آرائی
دل ہمیشہ می خواہد طوف کوئے جاناں را
ہائے بے پر و بالی وائے ناتوانی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |