ایک جلوے کی ہوس وہ دم رحلت بھی نہیں
ایک جلوے کی ہوس وہ دم رحلت بھی نہیں
کچھ محبت نہیں ظالم تو مروت بھی نہیں
اس کے کوچے میں کہاں کش مکش بیم و رجا
خوف دوزخ بھی نہیں خواہش جنت بھی نہیں
ذوق مستی کی مذمت نہ کر اتنی اے شیخ
کیا تجھے نشۂ ذوق مئے الفت بھی نہیں
بے نیازی بھی اٹھا لوں میں ترے ناز کی طرح
کیا وہ طاقت نہ رہی مجھ میں تو ہمت بھی نہیں
کس طرح کہئے کہ دیدار دکھایا اس نے
باغ جنت بھی نہیں روز قیامت بھی نہیں
زہد و تقویٰ و اصلاح در حسن عمل
کچھ نہیں مجھ میں مگر کیا تری رحمت بھی نہیں
جذب کامل سے اسے کھینچ لو اے حضرت دل
کیسے درویش ہو کچھ تم میں کرامت بھی نہیں
کبھی آسیؔ سے ہم آغوش نہ دیکھا تجھ کو
اثر جذبۂ دل اہل محبت بھی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |