ایک دن وے تھے کہ تم کو نہ فریب آتے تھے

ایک دن وے تھے کہ تم کو نہ فریب آتے تھے
by میر تقی میر
314975ایک دن وے تھے کہ تم کو نہ فریب آتے تھےمیر تقی میر

ایک دن وے تھے کہ تم کو نہ فریب آتے تھے
اونی سونی بھی مرے آگے اٹھا جاتے تھے
مدعی کاہے کو مجلس میں جگہ پاتے تھے
چھوتے تھے پاؤں تو پھر سر میں وہیں کھاتے تھے
یا تو اب شام و سحر پاس لگے رہتے ہیں
کرکے سرگوشی جو کچھ چاہتے ہیں کہتے ہیں

تم کو بھی آٹھ پہر حرف و حکایت ان سے
بازو جانو ہو انھیں چشم حمایت ان سے
شکر ان کا ہے جو ہے بھی تو شکایت ان سے
ہو طرح کوئی چلی جا ہے رعایت ان سے
ہاتھ کاندھے پہ کبھو رکھ کے کھڑے ہوتے ہو
کبھی منت کرو ہو ٹک جو لڑے ہوتے ہو

پاس ان کا ہے تمھیں خاطر انھیں کی منظور
ان سے ملنے میں نہیں کرتے کسی طور قصور
ان سے اک دن میں کئی بار ملاقات ضرور
ان سے لگ بیٹھتے ہو بھاگتے ہو ہم سے دور
جن کا شیوہ ہے حرم زدگی انھیں سے صحبت
بندگی کیشوں سے پرخاش خدا کی قدرت

وے جو آزردہ ہوں ٹک بھی تو منانے جاؤ
مکث کر بیٹھ رہیں گھر تو بلانے جاؤ
الغرض کرکے ادھر سو سو بہانے جاؤ
ان کو دریا پہ جو سن پاؤ نہانے جاؤ
ہم اگر خاک ملیں منھ پہ نہ بولو چالو
ہم اگر لوہو لگیں رونے تو ہنس کر ٹالو

ان سے آزار دہی کی مری کنگائش ہے
ہر دم ان سے مری خوں ریزی کی فرمائش ہے
ان کی دلجوئی ہے یا چہرے کی آرائش ہے
فارغ ان دونوں سے ہوتے ہو تو آسائش ہے
دو دو دن مست مئے ناب پڑے سوتے ہو
رہتے ہو بے مزہ بیدار اگر ہوتے ہو

خوبی رعنائی سے کم تجھ کو بہت فرصت ہے
اپنی ترکیب بنانے سے کہاں مہلت ہے
چہرہ آرائی شب و روز ہے یہ صورت ہے
شانہ و زلف گتھے رہتے ہیں یہ صحبت ہے
سرمے سے آنکھ اٹھاوے تو مرا رو دیکھے
آرسی چھوڑے تجھے ٹک تو ادھر تو دیکھے

محو کس روز تجھے پاتے تھے رعنائی کا
ذوق رہتا تھا تجھے کاہے کو خودرائی کا
کب کب آنچل رہے تھا ہاتھ میں اکلائی کا
اتنا دل بستہ نہ تھا جامۂ زیبائی کا
سرخ سنجاف نہ لگتی تھی نہ ہوتے تھے چاک
خون سے عشق کے ماروں کے یہ دامن تھا پاک

ایسے اوباشوں کی تقلید میں کب تھی تگ و دو
تنگ چولی کے نہ رہتا تھا کبھی اتنا گرو
پاٹ دامن کے نہ ہوتے تھے ترے ساٹھ کے سو
اب تو ہے قہر جو ڈھیلی ہو کمر ایک بھی جو
درزی کانپا ہی کرے ٹھیک نہ جب تک سی لے
کاڑھے ناکے میں سوئی کے کرے ٹانکے ڈھیلے

خط بھی آیا پہ مری تیری صفائی نہ ہوئی
کس گھڑی آن کے بیٹھے کہ لڑائی نہ ہوئی
اپنی سج دیکھنے سے تجھ کو رہائی نہ ہوئی
اک بلا جی کی ہوئی تنگ قبائی نہ ہوئی
رک گئے دیکھتے دس جا سے ترے مونڈھے چسے
چولی مسکی ہوئی سب مہریوں میں پہنچے پھنسے

بند لمبے نہ کبھو اتنے سیے جاتے تھے
شانے پر ڈالے ہوئے لچھے سے کب آتے تھے
زہ سراسر نہ گریبان میں لگواتے تھے
گھیر دامن کا بہت ہوتا تو گھبراتے تھے
اب تو پوشاک ہے کچھ تازہ نکالی تم نے
طرحداری کی طرح اور ہی ڈالی تم نے

کن دنوں ساتھ کئی یار رکھا کرتے تھے
کن شبوں غیر سے یہ پیار رکھا کرتے تھے
کس گھڑی ہاتھ میں تلوار رکھا کرتے تھے
کس کو یوں میری طرح مار رکھا کرتے تھے
میان سے اب تو لیے آٹھ پہر رہتے ہو
گھر سے جب نکلو ہو تب خون ہی کر رہتے ہو

بال واں سنوریں ترے یاں مجھے جی ہی جنجال
میں ملوں خاک میں منظور تجھے اپنی چال
ہو جگر داغ مرا منھ پہ بنے تیرے خال
مہندی پاؤں سے لگے گھل کے رہوں میں پامال
سرمہ آنکھوں میں جگہ تیری کرے شام و سحر
مطلق احوال مرا تجھ کو نہ ہو مدنظر

تھیں فریب اگلی نگاہیں وے تمھاری بارے
دامن و جیب پھٹے یاد میں ان کی سارے
شوق کے ہاتھ شب و روز سروں پر مارے
چھاتیاں کوٹتے ہی کوٹتے آخر ہارے
روئے اتنا کہ جگر میں نہ رہی لوہو کی بوند
اب سماں وہ ہے کہ دیکھوگے لیاں آنکھیں موند

تنگ اب حد سے زیادہ ہوئے ہیں یاد رہے
بس بہت اب ترے اطوار سے ناشاد رہے
کب تک اس طور کوئی اے ستم ایجاد رہے
دن کو بیداد رہے رات کو فریاد رہے
ہے قریب اب کہ ترے کوچے سے اٹھ کر جاویں
بے حمیت ہی ہمیں کہیو اگر پھر آویں

اک طرف مر رہیں گے جاکے بھلا کیا کریے
ہر زماں ہر کسو سے حال کہا کیا کریے
سر گریبان میں یوں ڈالے رہا کیا کریے
میرؔ کے طور ترا شکوہ لکھا کیا کریے
جی نہ نکلا اگر اس میں تو کڑھا کریے گا
مرثیہ اپنا کہیں بیٹھے کہا کریے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.