ایک مقتول جفا دو ظلم کے قابل نہ تھا

ایک مقتول جفا دو ظلم کے قابل نہ تھا
by ثاقب لکھنوی

ایک مقتول جفا دو ظلم کے قابل نہ تھا
ورنہ دل کا مارنا آسان تھا مشکل نہ تھا

شوق آزادی میں تڑپوں اس پہ راضی دل نہ تھا
ورنہ بیتابی سلامت چھوٹنا مشکل نہ تھا

حشر میں وہ سر جھکائے ہیں میں شکوہ کیا کروں
جانے والی جان تھی میرا کوئی قاتل نہ تھا

اب سلیمانی کسے کہتے ہیں بتلا دے مجھے
ایک عالم تھا تری مٹھی میں میرا دل نہ تھا

دے صدا اب دل مگر نقش قدم کو دیکھ کر
ایسے بھی در ہیں کبھی جن پر کوئی سائل نہ تھا

خاص وقت یاد گلشن اور میرا چھیڑنا
شب کو بھی صیاد میرے ذبح سے غافل نہ تھا

صبح و شام غم نے دامن بھر کے بھیجا دہر سے
ورنہ اس عمر دو روزہ کا کوئی حاصل نہ تھا

اس کی قدرت نا توانوں کو بھی دیتا ہے عروج
آسماں سے سر چڑھے نالہ تو اس قابل نہ تھا

تیرے نقشے نے بھی فرقت میں نہ بہلایا مجھے
شام غم جب آئی گردوں پر ہر کامل نہ تھا

دیکھ لیتے دو قدم چل کر کہ مطلب تھا یہی
در پہ جو آیا تھا وہ بیمار تھا سائل نہ تھا

قلب سوزاں اور ہی دھوکا نہ کھانا دہر میں
رہ گیا جو آگ دے کر سنگ تھا وہ دل نہ تھا

کچھ سنبھل جاتا اگر کروٹ بدل جاتے مری
یہ مجھے دشوار تھا ان کے لئے مشکل نہ تھا

ڈوبتا تھا دل شب وصل آ چکی تھی تا سحر
ایک تنکے کا سہارا بھی لب ساحل نہ تھا

اس دل گم گشتہ مطلب کے سبب سے دہر میں
کون سا دن تھا کہ میں آوارۂ منزل نہ تھا

ایک جلتی شمع اٹھوا دی بہت اچھا کیا
سوختہ دل تھا میں کوئی رونق محفل نہ تھا

شام غم جس میں رہے برسوں وہاں کیا عید ہو
وہ تو آ جائے مگر یہ دل ہی اس قابل نہ تھا

جز فریب حسن اور الفت کو ثاقبؔ کیا کہوں
زندگی سے شے کبھی اس پر بھی دل مائل نہ تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse