ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں
ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں
ورنہ یہ کنج قفس بیضۂ فولاد نہیں
شیخ عزلت تو تہ خاک بھی پہنچے گی بہم
مفت ہے سیر کہ یہ عالم ایجاد نہیں
داد لے چھوڑوں میں صیاد سے اپنی لیکن
ضعف سے میرے تئیں طاقت فریاد نہیں
کیوں ہی معذور بھی رکھ یوں تو سمجھ دل میں شیخ
یہ قدح خوار مرے قابل ارشاد نہیں
بے ستوں بھی ہے وہی اور وہی جوئے شیر
تھا نمک شہرت شیریں کا سو فرہاد نہیں
کیا کہوں میرؔ فراموش کیا ان نے تجھے
میں تو تقریب بھی کی پر تو اسے یاد نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |