ایک ہی خط میں ہے کیا حال جو مذکور نہیں

ایک ہی خط میں ہے کیا حال جو مذکور نہیں
by عزیز لکھنوی

ایک ہی خط میں ہے کیا حال جو مذکور نہیں
دل تو دل عشق میں سادہ ورق طور نہیں

ایک ہم ہیں کہ کسی بات کا مقدور نہیں
ایک وہ ہیں کہ کسی رنگ میں مجبور نہیں

امتحاں گاہ محبت نہیں گل زار خلیل
کون ایسا ہے جو زخموں سے یہاں چور نہیں

نزع کا وقت ہے بیٹھا ہے سرہانے کوئی
وقت اب وہ ہے کہ مرنا ہمیں منظور نہیں

قابل غور ہے اے جلوہ پرستان ازل
یہ کہانی ہے مری واقعۂ طور نہیں

مصر کا چاند ہو آغوش میں زنداں کے طلوع
فطرت حسن بدل جائے تو کچھ دور نہیں

سر جھکائے در دولت سے پلٹنے والے
بے نیازی کی ادائیں ہیں وہ مغرور نہیں

جبہ سائی بھی گوارا نہیں کرتا کوئی
اٹھ کے جانا در دولت سے بھی دستور نہیں

عشق میں سرحد منزل سے کچھ آگے ہوں گے
اس کا رونا ہے کوئی سعی بھی مشکور نہیں

دل میں پیوست ہوئی تھی جو مرے روز ازل
ہے وہی شوخ نظر صاعقۂ طور نہیں

دل کو بھی دی گئی ہے خدمت درد ابدی
صرف آنکھیں ہی مری رونے پہ معمور نہیں

سر مژگاں مرے آنسو کا ستارہ چمکا
دار پر اب اثر جذبۂ منصور نہیں

صاد سرخی سے کیا کس نے سر فرد جمال
اپنے عالم میں ترے دیدۂ مخمور نہیں

زندگی ختم ہوئی جب تو اک آواز سنی
آ گیا میں ترے نزدیک بس اب دور نہیں

روح کہتی ہوئی نکلی ہے دم نزع عزیزؔ
ان سے اس بزم میں ملنا ہمیں منظور نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse