اے ابر تر تو اور کسی سمت کو برس
اے ابر تر تو اور کسی سمت کو برس
اس ملک میں ہماری ہے یہ چشم تر ہی بس
حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
اک برگ گل گرا نہ جہاں تھا مرا قفس
مژگاں بھی بہہ گئیں مرے رونے سے چشم کی
سیلاب موج مارے تو ٹھہرے ہے کوئی خس
مجنوں کا دل ہوں محمل لیلیٰ سے ہوں جدا
تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالۂ جرس
اے گریہ اس کے دل میں اثر خوب ہی کیا
روتا ہوں جب میں سامنے اس کے تودے ہے ہنس
اس کی زباں کے عہدے سے کیوں کر نکل سکوں
کہتا ہوں ایک میں تو سناتا ہے مجھ کو دس
حیراں ہوں میرؔ نزع میں اب کیا کروں بھلا
احوال دل بہت ہے مجھے فرصت اک نفس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |