اے جان شب ہجراں تری سخت بڑی ہے
اے جان شب ہجراں تری سخت بڑی ہے
ہر پل مگر اس نس کی برمہا کی گھڑی ہے
ہر بال میں ہے میرا دل صاف گرفتار
کیا خوب تری زلف میں موتیاں کی لڑی ہے
نیلم کی جھلک دیتی ہے یاقوت میں گویا
سو تیرے لب لعل پہ مسی کی دھڑی ہے
تھے ذکر درازی کے تری ہجر کی شب کے
کیا پہنچی شتاب آ کے تری عمر بڑی ہے
سورج کا جلانے کوں جگر جیوں دل فائزؔ
اے نار تو کیوں دھوپ میں سر کھول کھڑی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |