اے دل نہ سن افسانہ کسی شوخ حسیں کا
اے دل نہ سن افسانہ کسی شوخ حسیں کا
ناعاقبت اندیش رہے گا نہ کہیں کا
دنیا کا رہا ہے دل ناکام نہ دیں کا
اس عشق بد انجام نے رکھا نہ کہیں کا
ہیں تاک میں اک شوخ کی دزدیدہ نگاہیں
اللہ نگہبان ہے اب جان حزیں کا
حالت دل بیتاب کی دیکھی نہیں جاتی
بہتر ہے کہ ہو جائے یہ پیوند زمیں کا
گو قدر وہاں خاک بھی ہوتی نہیں میری
ہر وقت تصور ہے مگر دل میں وہیں کا
ہر عاشق جانباز کو ڈر اے ستم آرا
تلوار سے بڑھ کر ہے تری چین جبیں کا
کچھ سختی دنیا کا مجھے غم نہیں احسنؔ
کھٹکا ہے مگر دل کو دم بازپسیں کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |