اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہوگا
اب اشک حنائی سے جو تر نہ کرے مژگاں
وہ تجھ کف رنگیں کا مارا نہ ہوا ہوگا
ٹک گور غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہوگا
بے نالہ و بے زاری بے خستگی و خواری
امروز کبھی اپنا فردا نہ ہوا ہوگا
ہے قاعدہ کلی یہ کوئے محبت میں
دل غم جو ہوا ہوگا پیدا نہ ہوا ہوگا
اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم
یک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہوگا
آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنیا میں برپا نہ ہوا ہوگا
جز مرتبۂ کل کو حاصل کرے ہے آخر
یک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہوگا
صد نشتر مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میرؔ ایسا سودا نہ ہوا ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |