اے نسیم سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیں
اے نسیم سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیں
دم جو گھٹتا ہے محبت میں خفا ہوتے ہیں
ہم فقیرانہ غزل کہتے ہیں اے شاہ جہاں
خیر ہو خیر ہو مصروف دعا ہوتے ہیں
بحر عالم میں یہ انسان ہیں مانند حباب
دم میں بنتے ہیں یہ دم بھر میں فنا ہوتے ہیں
ہم غریبوں کو نہ اس بزم سے اٹھوا اے بت
صحبت عام میں خاصان خدا ہوتے ہیں
ہم میں اور ان میں بڑھا رابطہ اخترؔ اتنا
ہم پہ وہ صدقے ہیں ہم ان پہ فدا ہوتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |