اے کشمکش الفت جی سخت پریشاں ہے
اے کشمکش الفت جی سخت پریشاں ہے
مرنے کی بھی حسرت ہے جینے کا کا بھی ارماں ہے
ساحل سے نہیں لگتی غرقاب نہیں ہوتی
کشتی ہے تھپیڑوں میں یہ بھی کوئی طوفاں ہے
میں کیا مری الفت کیا تو اور مجھے پوچھے
بس اے ستم آرا بس حسرت ہے نہ ارماں ہے
یہ موج تبسم کیا ظالم اسے دھو دے گی
جو رنگ پشیمانی چہرہ سے نمایاں ہے
مغرور محبت ہوں خود میری نگاہوں میں
یہ بے سر و سامانی راز سر و ساماں ہے
اس حسن مجسم کی شرمیلی اداؤں کا
احساس محبت بھی شرمندۂ احساں ہے
منظورؔ اسے رخصت کس دل سے کروں گا میں
دھڑکا ہے یہی ہر دم جب سے کہ وہ مہماں ہے
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |