بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکس رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
نگہ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار
خو تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |