Author:بہادر شاہ ظفر
بہادر شاہ ظفر (1775 - 1862) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- طلب ہیں عشقِ بتاں میں جو آبرو کرتے
- زلف جو رخ پر ترے اے مہر طلعت کھل گئی
- یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو
- یاں خاک کا بستر ہے، گلے میں کفنی ہے
- یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
- وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے
- واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں
- واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
- واں ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے
- ٹکڑے نہیں ہیں آنسوؤں میں دل کے چار پانچ
- تفتہ جانوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے
- شانے کی ہر زباں سے سنے کوئی لاف زلف
- شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
- سب رنگ میں اس گل کی مرے شان ہے موجود
- رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا
- قاروں اٹھا کے سر پہ سنا گنج لے چلا
- پان کی سرخی نہیں لب پر بت خوں خوار کے
- پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تو کیا
- نباہ بات کا اس حیلہ گر سے کچھ نہ ہوا
- نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
- نہ اس کا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا
- نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا
- نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل
- نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
- محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
- مر گئے اے واہ ان کی ناز برداری میں ہم
- میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں
- لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
- کیونکہ ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں
- کیونکر نہ خاکسار رہیں اہل کیں سے دور
- کیا کچھ نہ کیا اور ہیں کیا کچھ نہیں کرتے
- کیا کہوں دل مائل زلف دوتا کیونکر ہوا
- خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تو
- کریں گے قصد ہم جس دم تمہارے گھر میں آویں گے
- کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی
- جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا
- جب کہ پہلو میں ہمارے بت خودکام نہ ہو
- جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں
- اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
- عشق تو مشکل ہے اے دل کون کہتا سہل ہے
- ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا
- ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے
- ہوتے ہوتے چشم سے آج اشک باری رہ گئی
- ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں
- ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے
- ہے دل کو جو یاد آئی فلک پیر کسی کی
- گالیاں تنخواہ ٹھہری ہے اگر بٹ جائے گی
- گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
- دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے
- دیکھ دل کو مرے او کافر بے پیر نہ توڑ
- بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں
- بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |