بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو
بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو
کچھ کہا چاہوں ہوں میں تم سے ادھر آؤ سنو
میں تو جانے کا نہیں رو بہ رو اس کے یارو
کچھ وہ گر تم سے کہے ہے تو تمہیں جاؤ سنو
چھیڑنے کو مرے گر آپ کا جی چاہے ہے
بے ادب ہوں میں مرے حق میں جو فرماؤ سنو
بات بھی مانو کسی کی کوئی یہ بھی ضد ہے
اپنے عاشق کے تئیں اتنا نہ ترساؤ سنو
گل صنوبر کا اگر قصہ ہے تم پاس میاں
پڑھنے والا بھی تو موجود ہوں میں لاؤ سنو
اے دل و دیدہ مآل اس کا برا ہی سمجھو
دیکھ کر اس کے تئیں اتنا نہ للچاؤ سنو
مصحفیؔ بات تو کہنے دو ذرا قاصد کو
پہلے ہی حرف میں تم اتنا نہ گھبراؤ سنو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |