بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے
بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے
دھوئیں توبہ کے اڑانے کو بہار آئی ہے
تا کہ انگور ہرے ہوں مرے زخم دل کے
دھانی انگیا مرے دل دار نے رنگوائی ہے
تیرہ بختی سے ہوئی مجھ کو یہ خفت حاصل
دل وحشت میں سویدا کی جگہ پائی ہے
یہ چلن ہیں تو تمہیں حشر سے دیں گے تشبیہ
لوگ سفاک کہیں گے بڑی رسوائی ہے
موت کو زیست سمجھتا ہوں میں بیتابی سے
تری فرقت نے یہ حالت مری پہنچائی ہے
صبر ہجراں میں کرے کیفیؔٔ محزوں کب تک
آخر اے دوست کوئی حد شکیبائی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |