بارک اللہ میں ترے حسن کی کیا بات کہوں
بارک اللہ میں ترے حسن کی کیا بات کہوں
سج کہوں دھج کہوں چھب تختی کہوں گات کہوں
رخ و زلف اس کے شب تار میں دیکھے باہم
ہوں اچنبھے میں اسے دن کہوں یا رات کہوں
کی قیامت ترے قامت نے تو گلشن اوپر
پنکھڑی ایک طرف پھول کہوں پات کہوں
طاق ابرو کے نظارے کے تھے خواہاں سو ملا
اور کیا حاجت اب اے قبلۂ حاجات کہوں
دیکھنے کو ابھی دل تڑپا کہ تم آ پہنچے
کشش دل کہ تمہاری یہ کرامات کہوں
عین ہجراں میں بہار گل و باراں آئی
گریہ عاشق کا کہوں یا اسے برسات کہوں
اظفریؔ نے ہیں ترے عشق میں جھیلے پیارے
کیا کیا آفات بلیات کہ صدمات کہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |