باعث کوئی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

باعث کوئی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
by برجموہن دتاتریہ کیفی
318362باعث کوئی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتابرجموہن دتاتریہ کیفی

باعث کوئی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ورنہ مجھے سودا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

الزام یہ جھوٹا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیا وہ مری سنتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

جھوٹا ترا کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
دعویٰ مرا سچا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

تو دیکھ رہا ہے جو مرا حال ہے قاصد
مجھ کو یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کہنا جو نہ تھا کہہ گیا دیکھو تو ڈھٹائی
اور پھر کہے جاتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

وہ ضد پہ تلے بیٹھے ہیں کیا بحث سے حاصل
موقع ہی یہ ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

تھی سمع خراشی کی شکایت کبھی ان کو
اب سنتا ہوں شکوا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

بد گوئی سی بد گوئی ہے بہتان سا بہتان
اور اس پہ وہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

میں کچھ کہوں تو ہاتھ وہ کانوں پہ ہیں دھرتے
اور الٹا یہ چھیڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

آتا ہے جو منہ پر وہ کہے جاتے ہیں بے روک
اور اس پہ یہ فقرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

میں دیکھ چکا ہوں انہیں کہہ کہہ کے مگر کیا
اس کا ہی نتیجہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

میں کس سے کہوں کیا کہوں سنتا ہے وہاں کون
اس کا ہی یہ منشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یہ ترک محبت نہیں ان سے مگر اے دوست
رنج ایسا ہی پہنچا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

قینچی سی چلی چلتی ہے دیکھو تو زباں اور
اس پر بھی یہ دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

راز ان کے کھلے جاتے ہیں ایک ایک سبھوں پر
اور اس پہ تماشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

سچ بات کے سننے کی انہیں تاب کہاں ہے
اس سے یہی اچھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

باتیں ہیں کہ چھریاں سی چبھی جاتی ہیں دل میں
میرا ہی کلیجہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

میں کہنے پہ آؤں تو رلا کر انہیں چھوڑوں
مت پوچھ سبب کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

چپ چاپ سنی ان سنی کر دیتا ہوں ہر بات
غیروں میں بھی چرچا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

نازک ہے مزاج ان کا یہاں سچ کی ہے عادت
اس سمجھے سبب کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

بگڑا ہے مزاج اور کہیں تیز نہ ہو جائیں
مجھ کو یہی سانسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کیوں اپنی زباں سے کہوں پوچھو تم انہیں سے
راز اس میں نہیں یا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

جو رنج عزیزوں نے دئے کیا کہوں کیفیؔ
غیرت کا تقاضا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.