باغ عالم میں ہے بے رنگ بیان واعظ
باغ عالم میں ہے بے رنگ بیان واعظ
صورت برگ خزانی ہے زبان واعظ
مصر میں بھی نہ یہ فرعون کا عالم ہوگا
دیکھے مسجد میں کوئی شوکت و شان واعظ
ایک کانٹا سا نکل جائے ہمارے دل سے
سنسیوں سے کوئی کھینچے جو زبان واعظ
قلقل شیشۂ مے سے ترے میکش ساقی
سن رہے ہیں خبر راز نہان واعظ
حال معلوم ہوا نار و جناں کا کیوں کر
اس قدر تو نہیں اونچا ہے مکان واعظ
نام مے وہ ہے کہ لب پر جو کبھی آتا ہے
منہ سے باہر نکل آتی ہے زبان واعظ
میکدے والوں سے دبنے لگے مسجد والے
دور ساقی کا ہے گزرا وہ زمان واعظ
میں بھی وہ ہوں جو مرے آگے کبھی منہ کھولے
کاٹ ڈالوں ابھی دانتوں سے زبان واعظ
اپنے رندوں کی میں ہو حق کا ہوں سننے والا
یا الٰہی نہ سنانا سخنان واعظ
میں پری زادوں کا عاشق ہوں تو وہ حوروں کا
میرے سودے سے ہے بڑھ کر خفقان واعظ
پائے خم بیٹھ کے نشہ میں وہ باتیں کیجے
لوگ سمجھیں سر منبر ہے بیان واعظ
اے صباؔ خلد میں جاؤں کہ جہنم میں جلوں
نہ سنا ہے نہ سنوں گا میں بیان واعظ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |