باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے
باغ میں تو کبھو جو ہنستا ہے
غنچۂ دل مرا بکستا ہے
ارے بے مہر مجھ کو روتا چھوڑ
کہاں جاتا ہے مینہ برستا ہے
تیرے ماروں ہوؤں کی صورت دیکھ
میرا مرنے کو جی ترستا ہے
تیری تروار سے کوئی نہ بچا
اب کمر کس اوپر تو کستا ہے
کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے
کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے
میری فریاد کوئی نہیں سنتا
کوئی اس شہر میں بھی بستا ہے
حاتمؔ اس زلف کی طرف مت دیکھ
جان کر کیوں بلا میں پھنستا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |