باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی

باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
by تعشق لکھنوی

باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
کس قدر ممنون ہے باد بہاری آپ کی

بے وفائی آپ کی غفلت شعاری آپ کی
میرے دل نے عادتیں سیکھی ہیں ساری آپ کی

ہے یقیں باہم گلے ملنے کو اٹھیں دست شوق
ہو اگر تصویر بھی یکجا ہماری آپ کی

میکدے میں ٹوٹے جاتے ہیں بہم لڑ لڑ کے جام
مفسدہ پرداز ہے چشم خماری آپ کی

جذب اسے کہتے ہیں آئے کہنے میری قبر تک
اب یہاں سے بڑھ نہیں سکتی سواری آپ کی

کرتی ہیں اندھیر ہاتھوں کی یہ کالی میلیاں
قاتل عالم ہوئی ہے سوگواری آپ کی

جا بجا ہوتے ہیں دامن گیر دل عشاق کے
ہر قدم پر آج رکتی ہے سواری آپ کی

یاد ایامے کہ تھا زوروں پہ جذب حسن و عشق
وہ مرے دل کا تڑپنا بے قراری آپ کی

ہے شب مہتاب گورے رنگ سے کپڑے سیاہ
حسن کو چمکا رہی ہے سوگواری آپ کی

دو طرح کے ایک ساغر میں لبالب ہے شراب
خواب آلودہ نہیں چشم خماری آپ کی

میرے لاشے کو لیے پھرتے ہیں ان راہوں میں لوگ
جن گلی کوچوں میں پھرتی تھی سواری آپ کی

آج کس پر رحم آیا کس کو روئے ہیں حضور
ہے نصیب دشمناں آواز بھاری آپ کی

عہد میں مجنوں کے لیلیٰ کا رہا کیا دور دور
اب تعشقؔ کے زمانے میں ہے باری آپ کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse