بتاؤں کیا کہ مرے دل میں کیا ہے

بتاؤں کیا کہ مرے دل میں کیا ہے
by عزیز لکھنوی

بتاؤں کیا کہ مرے دل میں کیا ہے
سوا تیرے تری محفل میں کیا ہے

بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے
تو ہی تو ہے بھری محفل میں کیا ہے

کسی کے بجھتے دل کی ہے نشانی
چراغ سرحد منزل میں کیا ہے

بجز نقش پشیمانیٔ قاتل
نگاہ حسرت بسمل میں کیا ہے

جفاؤں کی بھی حد ہوتی ہے کوئی
خدا معلوم اس کے دل میں کیا ہے

مآل ہستی موہوم معلوم
عزیزؔ اس شغل لا حاصل میں کیا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse