بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے

بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے
by برجموہن دتاتریہ کیفی
318375بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہےبرجموہن دتاتریہ کیفی

بتائیں کیا عمل عشق حقیقی کا کہاں تک ہے
زمیں کیا آسماں تک ہے مکاں کیا لا مکاں تک ہے

تعین سے بری ہو گر ہے لا محدود کا طالب
کہ حد ملک و دنیا تو وہیں تک ہے جہاں تک ہے

نہ ہو آزاد دور چرخ کی حلقہ بگوشی سے
ترا مرکوز دل ماؤ شما اور این و آں تک ہے

تو بسم اللہ کے گنبد میں کیا ہے معتکف زاہد
سکون خاطر مضطر حواسوں سے اماں تک ہے

پہنچ سکتا ہے کب سچی خوشی کو عیش نفسانی
کہ وہ تو آب رکنا باد و جوئے مولیاں تک ہے

ہے شیخ و برہمن کے دین کی حد دیر و کعبہ تک
سواد دین عشق بے غرض کون و مکاں تک ہے

یقیں سے اور عمل سے پختگی پائی عقیدت نے
پہنچ تیری تو اے نادان بس وہم و گماں تک ہے

حقیقت حسن کی آئینہ تجھ پر کیونکہ ہو جاتی
نظر تیری تو زلف و خال و ابروئے بتاں تک ہے

جو ہیں مست الست ان کو خمار و سکر کا ڈر کیا
نگاہ تشنہ کام عشق ہی دست مغاں تک ہے

حصیر عشق کو کب دخل اس محفل میں ہے کیفیؔ
بساط اس کی فقط بین و بکا آہ و فغاں تک ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.