بتوں کا سامنا ہے اور میں ہوں
بتوں کا سامنا ہے اور میں ہوں
خدا کا آسرا ہے اور میں ہوں
یہاں آ کر کریں کیا یاس و امید
دل بے مدعا ہے اور میں ہوں
ملا جو خاک میں قدموں سے چھٹ کے
وہ تیرا نقش پا ہے اور میں ہوں
خدا جانے بتو ہوتا ہے کیا حال
یہی گر دل مرا ہے اور میں ہوں
ذرا آنے تو دے روز قیامت
صنم تو ہے خدا ہے اور میں ہوں
ستم ہے ظلم ہے ان کی طرف سے
محبت ہے وفا ہے اور میں ہوں
پسند اے مہرؔ ہے یہ قول استاد
صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |