بدعت مسنون ہو گئی ہے
بدعت مسنون ہو گئی ہے
امت مطعون ہو گئی ہے
کیا کہنا تری دعا کا زاہد
گردوں کا ستون ہو گئی ہے
رہنے دو اجل جو گھات میں ہے
مجھ پر مفتون ہو گئی ہے
حسرت کو غبار دل میں ڈھونڈو
زندہ مدفون ہو گئی ہے
وحشت کا تھا نام اول اول
اب تو وہ جنون ہو گئی ہے
واعظ نے بری نظر سے دیکھا
مے شیشے میں خون ہو گئی ہے
عارض کے قرین گلاب کا پھول
ہم رنگ کی دون ہو گئی ہے
بندہ ہوں ترا زبان شیریں
دنیا ممنون ہو گئی ہے
حیدرؔ شب غم میں مرگ ناگاہ
شادی کا شگون ہو گئی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |