برسات (برج نرائن چکبست, II)

331028برساتبرج نرائن چکبست

ہے دلاتی یاد مے نوشی فضا برسات کی
دل بڑھا جاتی ہے آ آ کر گھٹا برسات کی

بندھ گئی ہے رحمت حق سے ہوا برسات کی
نام کھلنے کا نہیں لیتی گھٹا برسات کی

اگ رہا ہے ہر طرف سبزہ در و دیوار پر
انتہا گرمی کی ہے اور ابتدا برسات کی

دیکھنا سوکھی ہوئی شاخوں میں بھی جان آ گئی
حق میں پودوں کے مسیحا ہے ہوا برسات کی

ہوں شریک بزم مے زاہد بھی توبہ توڑ کر
جھومتی قبلہ سے اٹھی ہے گھٹا برسات کی

اصل تو یہ ہے مے و معشوق کا جب لطف ہے
چاندنی ہو رات کو دن کو گھٹا برسات کی

وہ پپیہوں کی صدائیں اور وہ موروں کا رقص
وہ ہوائے سرو اور کالی گھٹا برسات کی

پار اتر جائیں گے بحر غم سے رند بادہ نوش
لے اڑے گی کشتیٔ مے کو ہوا برسات کی

خود بخود تازہ امنگیں جوش پر آنے لگیں
دل کو گرمانے لگی ٹھنڈی ہوا برسات کی

وہ دعائیں مے کشوں کی اور وہ لطف انتظار
ہائے کن نازوں سے چلتی ہے ہوا برسات کی

میں یہ سمجھا ابر کے رنگین ٹکڑے دیکھ کر
تخت پریوں کے اڑ لائی ہوا برسات کی

ناز ہو جس کو بہار مصر و شام و روم پر
سر زمین ہند میں دیکھے فضا برسات کی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.