برق رخسار یار پھر چمکی
برق رخسار یار پھر چمکی
اس چمن کی بہار پھر چمکی
تو نے پھر اس کو سان پر رکھا
تیرے خنجر کی دھار پھر چمکی
میرے گریے سے آب و تاب آیا
صورت روزگار پھر چمکی
خون عاشق سے وہ زہ دامن
دم شمشیر وار پھر چمکی
دیکھیو پانو رکھ دیا کس نے
آج کیوں نوک خار پھر چمکی
وہ جو اک ٹیس سی ہے دل میں مرے
رہ کے بے اختیار پھر چمکی
مصحفیؔ کی جو تو نے در ریزی
شاعری تیری یار پھر چمکی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |