برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی

برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی
by محمد ابراہیم ذوق
296612برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئیمحمد ابراہیم ذوق

برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی
کچھ جو خاکستر بچا آندھی اڑا کر لے گئی

اس کے قدموں تک نہ بیتابی بڑھا کر لے گئی
ہائے دو پلٹے دئیے اور پھر ہٹا کر لے گئی

ناتوانی ہم کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا کر لے گئی
چیونٹی سے چیونٹی دانہ چھڑا کر لے گئی

صبح رخ سے کون شام زلف میں جاتا تھا آہ
اے دل شامت زدہ شامت لگا کر لے گئی

خون سے فرہاد کے رنگیں ہوا دامان کوہ
کیوں نہ موج شیر یہ دھبا چھڑا کر لے گئی

تم نے تو چھوڑا ہی تھا اے ہم رہان قافلہ
لیکن آواز جرس ہم کو جگا کر لے گئی

نوک مژگاں جب ہوئی سینہ فگاروں سے دو چار
پارہ ہائے دل سے گلدستہ بنا کر لے گئی

دیکھی کچھ دل کی کشش لیلیٰ کہ ناقے کو ترے
سوئے مجنوں آخرش رستہ بھلا کر لے گئی

واہ اے سوز دروں کوچے میں اس کے برق آہ
رات ہم کو ہر قدم مشعل دکھا کر لے گئی

وہ گئے گھر غیر کے اور یاں ہمیں دم بھر کے بعد
بدگمانی ان کے گھر سو گھر پھرا کر لے گئی

جو شہید ناز کوچے میں تمہارے تھا پڑا
کیا کہوں تقدیر اسے کیونکر اٹھا کر لے گئی

دشت وحشت میں بگولا تھا کہ دیوانہ ترا
روح مجنوں بہر استقبال آ کر لے گئی

آگ میں ہے کون گر پڑتا مگر پروانے کو
آتش سوز محبت تھی جلا کر لے گئی

اے پری پہلو سے میرے کیا کہوں تیری نگاہ
دل اڑا کر لے گئی یا پر لگا کر لے گئی

ذوقؔ مر جانے کا تو اپنے کوئی موقع نہ تھا
کوئے جاناں میں اجل ناحق لگا کر لے گئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.