برق کلیسا

برق کلیسا
by اکبر الہ آبادی

رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ نزاکت وہ ابھار
زلف پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدر رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید
آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہ گار کریں
گال وہ صبح درخشاں کہ ملک پیار کریں
گرم تقریر جسے سننے کو شعلہ لپکے
دلکش آواز کہ سن کر جسے بلبل جھپکے
دل کشی چال میں ایسی کہ ستارے رک جائیں
سرکشی ناز میں ایسی کہ گورنر جھک جائیں
آتش حسن سے تقوے کو جلانے والی
بجلیاں لطف تبسم سے گرانے والی
پہلوئے حسن بیاں شوخیٔ تقریر میں غرق
ترکی و مصر و فلسطین کے حالات میں برق
پس گیا لوٹ گیا دل میں سکت ہی نہ رہی
سر تھے تمکین کے جس گت میں وہ گت ہی نہ رہی
ضبط کے عزم کا اس وقت اثر کچھ نہ ہوا
یا حفیظ کا کیا ورد مگر کچھ نہ ہوا
عرض کی میں نے کہ اے گلشن فطرت کی بہار
دولت و عزت و ایماں ترے قدموں پہ نثار
تو اگر عہد وفا باندھ کے میری ہو جائے
ساری دنیا سے مرے قلب کو سیری ہو جائے
شوق کے جوش میں میں نے جو زباں یوں کھولی
ناز و انداز سے تیور کو چڑھا کر بولی
غیرممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے انسانوں سے
لن ترانی کی یہ لیتے ہیں نمازی بن کر
حملے سرحد پہ کیا کرتے ہیں غازی بن کر
کوئی بنتا ہے جو مہدی تو بگڑ جاتے ہیں
آگ میں کودتے ہیں توپ سے لڑ جاتے ہیں
گل کھلائے کوئی میداں میں تو اترا جائیں
پائیں سامان اقامت تو قیامت ڈھائیں
مطمئن ہو کوئی کیوں کر کہ یہ ہیں نیک نہاد
ہے ہنوز ان کی رگوں میں اثر حکم جہاد
دشمن صبر کی نظروں میں لگاوٹ آئی
کامیابی کی دل زار نے آہٹ پائی
عرض کی میں نے کہ اے لذت جاں راحت روح
اب زمانے پہ نہیں ہے اثر آدم و نوح
شجر طور کا اس باغ میں پودا ہی نہیں
گیسوئے حور کا اس دور میں سودا ہی نہیں
اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف
ٹکٹکی بندھ گئی ہے قوم کی انجن کی طرف
ہم میں باقی نہیں اب خالد جاں باز کا رنگ
دل پہ غالب ہے فقط حافظ شیراز کا رنگ
یاں نہ وہ نعرۂ تکبیر نہ وہ جوش سپاہ
سب کے سب آپ ہی پڑھتے رہیں سبحان اللہ
جوہر تیغ مجاہد ترے ابرو پہ نثار
نور ایماں کا ترے آئینۂ رو پہ نثار
اٹھ گئی صفحۂ خاطر سے وہ بحث بد و نیک
دو دلے ہو رہے ہیں کہتے ہیں اللہ کو ایک
موج کوثر کی کہاں اب ہے مرے باغ کے گرد
میں تو تہذیب میں ہوں پیر مغاں کا شاگرد
مجھ پہ کچھ وجہ عتاب آپ کو اے جان نہیں
نام ہی نام ہے ورنہ میں مسلمان نہیں
جب کہا صاف یہ میں نے کہ جو ہو صاحب فہم
تو نکالو دل نازک سے یہ شبہ یہ وہم
میرے اسلام کو اک قصۂ ماضی سمجھو
ہنس کے بولی کہ تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse