بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں

بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316312بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیںغلام علی ہمدانی مصحفی

بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں
ساتھ فقیر کی ڈھولک کے پر ڈھم ڈھمیاں رنگین بجیں

نالہ کشی سے رات جو گلشن رشک بزم عشرت تھا
منقاریں مرغان چمن کی صبح تلک جوں بین بجیں

تجھ سے نہ کہتا تھا میں زاہد مے خانے کی راہ نہ چل
آخر تجھ پر رستے ہی میں تالیاں او بے دین بجیں

میں جو نشے میں رات ہوا غٹپٹ اس معشوق کی چھاتی ساتھ
پازیبیں پاؤں کی اس کے کیا ہی بصد تمکین بجیں

شمع رہی شب جب تک جلتی مجھ کو نہ آئی نیند ذرا
جھانجھیں پروانے کے پروں کی بس کہ سر بالین بجیں

بل بے مزاج نازک تیرا نیند اچٹ گئی اس گل کی
بالیاں پتوں سے جو الجھ کر رات سر بالین بجیں

وعدہ کر کے جب وہ نہ آیا سیر چمن کو دل نے کہا
رات گئی چل باغ سے اب گھڑیاں تو کئی غمگین بجیں

جی کا کڑھانا میرے تھا منظور مگر گھڑیالوں کی
وصل کی شب جو تا بہ سحر گھڑیالیں بے آئین بجیں

ڈیڑھ پہر ٹھہروں گا یہ کہہ کہ یار مرے گھر آیا تھا
پر گھبرا کے جانے کو اٹھا جوں ہی پہر پر تین بجیں

بانگ حمیر سے کم وہ نہ سمجھا بس کہ نفیس مزاج تھا یار
ناقوسیں بت خانوں میں ہر چند بصد تزئین بجیں

آئے بحتری ہو کے ملائک مر جو گیا عاشق تیرا
نوبتیں کیا کیا شادی کی مرقد میں دم تلقین بجیں

وصل کی شب آخر ہونے کا مصحفیؔ دھڑکا کیا میں کہوں
جی ہی گیا بس تن سے نکل جب تین پہر پر تین بجیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.