بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی
سنگ پر سنگ ہر اک کوچہ میں کھائے تو سہی
پر بلا سے ترے دیوانے کھائے تو سہی
گو جنازے پہ نہیں قبر پہ آئے وہ مری
شکوہ کیا کیجے غنیمت ہے کہ آئے تو سہی
کیونکہ دیوار پہ چڑھ جاؤں کوئی کہتا ہے
پاؤں کاٹوں گا انگوٹھا وہ جمائے تو سہی
پارۂ مصحف دل تھے ترے کوچہ میں پڑے
آتے پاؤں کے تلے شکر کہ پائے تو سہی
صاف بے پردہ نہیں ہوتا وہ غرفہ میں نہ ہو
روزن در سے کبھی آنکھ لڑائے تو سہی
گہ بڑھاتا ہے گہے مہ کو گھٹاتا ہے فلک
پر شب ہجر کو ہم دیکھیں گھٹائے تو سہی
کروں اک نالے سے میں حشر میں برپا سو حشر
شور محشر مجھے سوتے سے جگائے تو سہی
گر پڑے تھے کئی اس کوچے میں دل کے ٹکڑے
آتے پاؤں کے تلے شکر کہ پائے تو سہی
تھے تمہیں نکلے جو اس دام بلا سے اے ذوقؔ
ورنہ تھے پیچ میں اس زلف کے آئے تو سہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |